ہمارے معاشرے میں ظلم کے نظام کے خلاف شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنے گی

احوال قفس
السلام علیکم و رحمتہ اللہ

جیل سے رہائی کے بعد میں نے احوالِ قفس کے نام سے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات۔۔۔۔ جیل کے حالات۔۔۔ اور پولیس کے گھناونے کردار پر دس قسطوں پر مشتمل ایک تحریر لکھی تھی جسے دوستوں نے بہت زیادہ پسند کیا تھا اور اسے دوبارہ شیئر کرنے کیلئے میرے پاس بار بار دوستوں کی ریکوسٹ آرہی ہیں۔۔۔۔۔ دوستوں کی دلچسپی اور اصلاحِ احوال کے پیشِ نظر یہ تحریر اس بار بزنس لنک انٹر نیشنل نیو ایجنشی کی وساطت سے آپکی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔۔ اس امید کے ساتھ کہ یہ تحریر ہمارے معاشرے میں ظلم کے نظام کے خلاف شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنے گی اور کچھ مثبت تبدیلی لانے میں معاون ثابت ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اپنی دعاوں میں یاد رکھئے

{ ڈاکٹرسید محمد اقبال }
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احوالِ قفس….. قسط نمبر 1

” تم دہشت گرد ہو ”

یہ پیر 11 ستمبر 2017 صبح ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا جب ہم مقتول اکبرعلی کی بیوہ، تین معصوم بچوں اور اس کیس کے مدعی مقتول کے بھائی عبدالجبار کے ہمراہ ملیر کورٹ کے گیٹ پر پہنچے، جہاں معلوم ہوا کہ اکبر علی کے قتل میں نامزد دو ووکلاءجاوید حسین اور جمیل منگی کی حمایت میں ملیر بار کے وکلاءنے ہڑتال کرکے کورٹس کو بند اور کورٹ کے مین گیٹ سے اندر داخلے پر پابندی لگا دی ہے، ہم نے کچھ انتظار کے بعد گیٹ پر متعین پولیس اہلکاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ گیٹ کھول دیں اور اپنی پیشیوں پر آنے والے لوگوں کو اپنے وکلاءسے ملنے اور اگلی تاریخ لینے کی اجازت دیں، انکا جواب تھا کہ گیٹ وکلاءکے کہنے پر بند کیا گیا ہے اور انہی کے کہنے پر کھولا جائے گا –

مقتول کی بیوہ اور بھائی سے ہمدردی کے اظہار کے طور پر آنے والے آٹھ، دس افراد کے علاوہ گیٹ بند ہونے کی وجہ سے اپنی پیشیاں بھگتانے والے بھی کافی تعداد میں گیٹ پر جمع ہو گئے تھے، اتنے میں ملیر سٹی تھانے کے SHO ارشد اعوان اور DSP قمر احمد بھی موقع پر پہنچ گئے، ملیر بار کے بیشتر وکلاءگیٹ کے دوسری طرف جمع ہوکر اپنے وکیل ساتھیوں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور تھانہ شاہ لطیف ٹاو¿ن کے SHO اور ہمیں مغلظات سے نواز رہے تھے، وہ کبھی گیٹ کے قریب آکر ہمیں دھمکاتے اور بیہودہ کلمات سے ہمیں اشتعال دلاتے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتے، SHO اور DSP نے ہمیں ہجوم کو گیٹ سے ہٹانے کیلئے کہا تو ہم نے ان کی منت کرکے انہیں گیٹ کے سامنے سے ہٹا دیا، حالانکہ ان سب کا کہنا یہ تھا کہ ہم اپنی پیشیوں پر آئے ہوئے ہیں اور ظاہر ہے چونکہ ہمیں اس گیٹ سے گزر کر اندر جانا ہے تو اسلئے ہم گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر اندر جانے کا انتظار کررہے ہیں، لیکن گیٹ بند ہونے کی وجہ سے یوں لگ رہا تھا کہ گویا یہ لوگ جمع ہوکر گیٹ کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہوں ،

میں نے SHO اور SSP سے کہا کہ یہ سب لوگ یہ چاہتے ہیں کہ گیٹ کو کھولا جائے اور اپنی پیشیوں پر آنے والے ہم لوگ اندر جاکر اپنی حاضری لگائیں اور نئی تاریخ لیں ، باقی وکلاءاپنی ہڑتال کا اپنا شوق پورا کر تے رہیں ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ، میں نے انہیں تجویز دی کہ ہم اور وکلاءمیں سے دو، دو افراد DJ ملیر سے مل لیتے ہیں اور اس مسئلے کا کوئی حل نکال لیتے ہیں،ڈی ایس پی قمر اور SHO نے اندر باہر کے ایک دو چکر لگانے کے بعد میرے پاس آکر کہا کہ آو¿ ہم آپ کو DJ صاحب کے پاس لئے چلتے ہیں، میں فوراً ان کے ساتھ روانہ ہوا لیکن جب انہوں نے تھوڑے فاصلے پر کھڑی پولیس وین میں مجھے بیٹھنے کو کہا تو میں سمجھ گیا کہ پشاور کی نیت سے روانہ ہونے والی ٹرین کوئٹہ کی سمت روانہ ہوچکی ہے، یہ سب کچھ ایک پری پلان منصوبے کے تحت کیا گیا تھا جو بعد میں کاٹی گئی FIR کی نوعیت نے واضح کردیا، نامزد افراد کے موقع پر موجود ہونے کے باوجود ان میں سے صرف مجھے گرفتار کیا جانا…… اور مقتول اکبر علی کے قتل کے مدعی اسکے بھائی عبدالجبار اور ایک گواہ محمد جاوید کی دہشت گرد کے طور پر اس FIR میں نامزدگی نے اس سازش کا سارا بھانڈا ہی پھوڑ دیا تھا، کہ اب انہیں پری انجینئرڈ طریقے سے مقتول کے کیس کی پیروی سے عملاً باہر نکال دیا گیا تھا………

اس FIR کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کئے گئے………. عرصہ چار سال سے پیپلز پارٹی کے بعض عہدہ داروں، SSP راو¿ انوار اور ملیر ڈولپمینٹ آتھارٹی کے DG محمد سہیل نے زمینوں پر قبضے اور کرپشن میں اپنے کردار کے خلاف میری طرف سے، سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور نیب میں جانے کا بدلہ لے لیا تھا……… SHO ارشد اعوان نے ایک پلاٹ پر قبضے میں اپنے ایک حوالدار خادم حسین کو سپورٹ کرنے اور اس کے اس کردار کی وجہ سے IG کو میری درخواست کے سبب اسکی معطلی کا بدلہ بھی چکا دیا گیا تھا…….اور اب ملیر بار کے وکلا اکبرعلی کے کیس میں مدعی، گواہ اور وکیل کی عدم موجودگی میں کھلے بندوں زمینوں پر قبضے میں ملوث درمحمد کے دستِ راست اور قتل کے ملزم اپنے دو وکلائ ساتھیوں کے دفاع کرنے کی پوزیشن میں آگئے تھے،

مجھے نہایت تیزی کیساتھ ملیر سٹی تھانے لے جایا گیا، میری جامہ تلاشی لے کر مجھ سے میرا موبائل فون، شناختی کارڈ، اور جیب میں موجود رقم جمع کرلی گئی، پہلے تو مجھے اخبارات اور ٹی وی چینلز سے چھپانے کیلئے ایک دفتر میں رکھ کر دروازہ بند کر دیا گیا اور پھر مجھے لاک اپ میں بند کر دیا،ارشد اعون نے خود لاک اَپ کے سامنے کھڑے ہو کر اخبارات اور چینلز کے رپورٹرز اور میرے وکلائ کا مجھ تک پہنچنا ناممکن بنا دیا اور ان پر گرجتے برستے رہے، میں نے ارشد اعوان سے نہایت درشت لہجے میں سوال کیا کہ تم ان وکلائ اور رپورٹرز کو مجھ سے ملنے کیوں نہیں دے رہے ہو…..؟ تو اس نے دھاڑ کر کہا….. اسلئے کہ

” تم دہشتگرد ہو ”

جی ہاں ……! میں قانون کے” محافظ ” چند افراد کے” مفادات ” کو نقصان پہنچانے کی وجہ سے چند لمحوں میں ایک پرامن شہری سے دہشت گرد بن چکا تھا………

اگر آپ معاشرے کے بااختیار افراد کی کرپشن، ان کو سوٹ کرتے ہوئے اس گلے سڑے نظام کے خاتمےاور اسلامی نظام و قانون کے نفاذ کی بات کرتے ہیں اور اتفاق سے آپ نے بڑی داڑھی بھی رکھی ہوئی ہے تو فی زمانہ آپ سے بڑا دہشت گرد اَور کوئی نہیں،
اور اتفاق سے میں ان تمام شرائط پر بطریقہ احسن پورا اتر رہا تھا ……….

مجھ پر بعض دیگر دفعات سمیت دہشتگردی کا دفعہ 7ATA لگا کر وہ ایک “دہشتگرد ” کو انتہائی آسانی کیساتھ بلامقابلہ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوچکے تھے………….

ایس، ایچ، او ارشد اعوان تھانہ ملیر سٹی میں کونسی دکانداری کررہا تھا ،( جاری ہے )ا ن شاءللہ یہ آئندہ قسط میں بتاو¿نگا

About BLI News 3217 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.