تھر: صحرا کے بدلتے حالات تھر دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک

 

رپورٹ: محمد مستقیم احمد

یوں تو پاکستان کے صوبےسندھ کے سب سے پسماندہ ترین علاقے تھر میں کوئلہ 1970 میں دریافت ہوا۔ لیکن اس کوئلے کو نکالنے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ وجوہات کچھ سیاسی تھیں اور کچھ ترجیحات میں شامل نہ ہونا۔ بحر حال مشرف دور میں اس منصوبے کو دوبارہ حکومتی ترجیحات میں شامل کیاگیا تاکہ ملک کی توانائی کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ کئی تنازعات اور خدشات کے زد میں رہنے کے بعد تھر کول کان کنی اور بجلی کی پیداوار کا منصوبہ موجودہ حکومت نےسی پیک میں شامل کیا اور اب یہ اپنی تکمیل کی طرف گامزن ہے۔

تھر دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک

پاکستان جیولو جیکل سروے کے مطابق تھر کے مقام پر  175بلین ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جو ملک میں توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے اور معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

تھر کے 12 بلاکس میں سے بلاک 1  اور  2   پر    کان کنی اور پاور پلانٹ کی تعمیر کا کام جاری ہے۔منصوبے کے مطابق2018  جون میں پاور پلانٹ سے بجلی بن کر نیشنل گرڈ  کو منتقل کر دی جائے گی۔اس بلاک کی تعمیر   پر تقریباً 300 ارب  روپے لاگت آئے گی۔

سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی  حکومت سندھ کے ساتھ ساتھ وفاق ،دو چائنیز کمپنیوں اور پرائیویٹ سیکٹر کی پاکستانی کمپنیوں کے اشتراک سے  اس منصوبے کومکمل کر رہی ہے۔

اس علاقے کا شمار پاکستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے یہاں غربت،بے روزگاری،تعلیم اور صحت  جیسےمسائل کا انبار ہے۔ زیادہ تر آبادی ہندو برادری پر مشتمل ہے۔ لوگ کچے گول گنبد نما کمرے بناکر رہتے ہے۔جسے  مقامی  زبان میں‘ چالہ’ یا ‘ چولہ’ کہتے ہیں۔

یہ ایک بڑا منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے نہ صرف ملک کی توانائی کی ضرورت پوری ہوسکے گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔

لیکن مقامی آبادی  کو اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا ؟ ؟؟ اس سوال کے جواب میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی   (SECMC) کے سربراہ شمس الدین احمد شیخ کا کہنا ہے کہ وہ اس منصوبے کے فوائد کو یہاں کے عام آدمی تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اگر مقامی آبادی کی زندگیوں میں تبدیلی نہیں آئی اور وہ اس منصوبے کے ثمرات کا حصہ نہ بنے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے سو ئی گیس منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘سوئی  ’سے گیس نکلی  جس سے ملک کو فائدہ ہوا کمپنیوں کو فائدہ ہوا مگر وہاں کی مقامی آبادی آج بھی زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے۔

مقامی آبادی منصوبے کے پارٹنر:

ایک ملاقات میں شمس الدین احمد شیخ نے اس منصوبے سے مقامی آبادی کو حاصل  ہونے والے فوائد کے بارے میں تفصیل سے بتایا  کہ اس منصوبے سے 1700 افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔ جنہیں نا صرف نئے گھر تعمیر کر کے دیئے  جارہے ہیں بلکہ یہ پاکستان کا واحد منصوبہ ہے جس میں مقامی آبادی کو منصوبے میں حصے دار ‘پارٹنر’ بنایا جارہا ہے۔جس سے تھر میں ایک نئی سماجی و معاشرتی اور معاشی ترقی  کو فروغ حاصل ہوگا۔

یہاں  کےلوگ اپنی ثقا فت سے بہت جڑے ہیں  اسی وجہ سے ماڈل گھر  کی تعمیر میں نا صرف بنیادی ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے ساتھ ساتھ مقامی رہن سہن اور ثقافت کو بھی خاص اہمیت دی گئی ہے۔

نئی رہائشی اسکیم کے تحت تھر کے ان متاثرین کو بلکہ ‘ پارٹنرز’ کو  1200گز پر مشتمل گھر بناکر دیئے جائیں گے۔ جس پر تقریباً  18 لاکھ روپے  فی گھر لاگت آئے گی۔ 

سماجی ترقی پر اثرات:

گھروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ علاقے کی سماجی اور معاشرتی ترقی کے لئے  یہاں  بہت کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے یہاں

‘تھر فاونڈیشن’ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ تھر فاونڈیشن نے یہاں صحت،تعلیم، ہنر اورفنی مہارت کی تربیت کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت کے دوسرے کاموں کے لئے خود سے سارا کام کرنے کی بجائے ان شعبوں میں بہترین اور اعلیٰ کار کردگی کی حامل ملک کی مشہور اور معروف این جی اوز

کو پارٹنر  بنایا ہے تاکہ ہر شعبے کی ترقی میں بہترین معیاری کام کیا جاسکے۔

یہاں تعلیم بنیادی مسئلہ ہے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے تعلیم کے شعبے کے لئے  (TCF) دا سٹیزن فاونڈیشن کی معاونت سے کئی اسکول   تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔

کچھ اسکول تعمیری مراحل میں ہیں جب کہ کچھ میں تعلیمی سر گرمیاں جاری ہیں۔اس کے علاوہ حکومت سندھ سے تھر کے علاقے کے تمام سرکاری اسکولوں کو  Adopt کر لیا گیا ہے  ۔جس سے یہاں تعلیم کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

ہنر مند تربیت یافتہ تھری خواتین:

یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے۔منصوبے میں مقامی لوگوں کو زیادہ سے سے روزگار فراہم کرنے کے لئے مقامی آبادی کا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہنر مند ہونا بھی ضروری ہے اس کام کے لئے ‘ امن فاونڈیشن’کے ساتھ مل کر مقامی آبادی کو ہنر اور فنی مہارت کی تربیت دی جارہی ہے۔اس ضمن میں اس بات کا خاص خیال رکھا جارہا ہے کہ خواتین کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنایا جاسکے تاکہ وہ معاشرے  کی ترقی میں اپنا بھر پور حصہ ڈال سکیں۔ خواتین کو اس حوالے سے راغب بھی کیا جارہا ہے اور رجسٹریشن کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے جب کہ کچھ  مقامی خواتین ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد اس منصوبے پر کام کرتی بھی نظر آتی ہیں  جس میں ڈمپر ٹرک کو ڈرائیو کرتی خواتین اور ایک مقامی انجینئر لڑکی قابل تعریف ہیں۔

صحت عامہ کی سہولیات کی فراہمی کے لئے ملک کے مشہور اسپتال‘ انڈس  ہاسپٹل’ کے اشتراک سے تھر‘ اسلام کوٹ’ میں ایک جدید اسپتال کی تعمیر بھی جاری ہے۔اس کے علاوہ  غربت کے خاتمے اوردیگر سماجی خدمت کے کاموں کے لئے ‘سیلانی ویلفئر ٹرسٹ ’کے اشتراک سے بھی یہاں  منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔

قدرتی ماحول پر اثرات اور ممکنہ سد باب :

کوئلے سے بجلی پیدا کرنے میں بوائلر سے نکلنے والا دھواں اور پلانٹ کا آلودہ  پانی ماحول کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔اس وجہ سے بھی یہ منصوبہ  ماضی میں خدشات کا شکار رہا ۔اس حوالے سے کمپنی کا موئقف سے کہ پاکستان کو بجلی کی ضرورت ہے اور  کوئلے کے اتنے بڑے ذخائر کو استعمال میں نہ لانا غلط ہوگا ۔امریکہ،چین،انڈیا سمیت  کئی ممالک کوئلے سے بجلی بنا رہے ہیں تاہم اس منصوبے میں ماحولیاتی آلودگی کو ممکنہ حد تک کم سے کم رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ اس حوالے سے اس منصوبے کے بجلی گھر کے بوائلر کی چمنی کی اونچائی جس سے دھواں خارج ہوتا ہے اس کو 300  میٹر ز تک بلند تعمیر کیا گیا ہے۔تاکہ خارج ہونے والے دھوئیں کے  اثرات انسانی آبادی پر نہ پڑیں اس امر کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ خارج ہونے والا دھواں کم سے کم آلودہ ہو ۔ پاور پروجیکٹ سے نکلنے والے آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے بھی انہی اصولوں کو مد نظر رکھا گیا ہے۔اس حوالے سے انٹر نیشنل اسٹینڈرڈ کے تمام اصوں اور ضابطوں کا خیال رکھا گیا ہے۔

ریگستان میں شجر کاری:

کان کنی کی کھدائی سے نکلنے والی مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے بنائے جارہے ہیں جو دور سے پہاڑوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ان پہاڑ نما ٹیلوں پر بہت بڑی شجر کاری کی جارہی ہے ۔جس سے ماحول کو سر سبز بنانے  اور آلودگی سے بچانے میں مدد ملے گی۔

About BLI News 3217 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.